A Fascinating Incident from Begum Bilquis Edhi’s Life
The Question
During a morning show, Begum Bilquis Edhi was asked to share an interesting incident from her life.
The Incident
With a smile, Begum Bilquis Edhi recounted an event that took place while she and Mr. Edhi were traveling to Sukkur in a private car for a wedding. It was nighttime, and as they were passing through the interior of Sindh, a group of bandits stopped their car and took them off the road into a rural area where several other vehicles were already parked. The bandits were busy looting.
After a short while, one of the bandits approached them and instructed the driver and Mr. Edhi to step out of the car. They were searched, and their pockets were emptied.
A Surprising Turn
Suddenly, the bandit noticed Mr. Edhi and, after a closer look, hurriedly went to a nearby jeep and returned with another person. The person shone a torch on Mr. Edhi’s face and asked, “Are you Abdul Sattar Edhi?” When the answer was affirmative, the bandit chief became visibly distressed.
The Unexpected Generosity
He immediately ordered that all the vehicles which had been looted be returned, and he personally apologized to Mr. Edhi by kissing his hands. To everyone’s surprise, when the bandit was about to leave, he handed Mr. Edhi a donation of 2 million rupees. When Mr. Edhi refused, the bandit explained, “Sir, when sinners like me are killed in police encounters, no one from our family even comes to claim our bodies. It is Edhi who buries and prepares the dead. We were compelled to offer this donation.”
A Remarkable Truth
This story highlights how even bandits of the past had a sense of honor. It also reflects a time when a person’s character and actions could inspire respect and generosity, even from those society might deem unsavory.
ایک زمانہ تھا ڈاکو بھی آعلیٰ ظرف ہوا کرتے تھے۔۔۔
ایک مارننگ شو میں بیگم بلقیس ایدھی سے سوال کیا گیا کے اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں :-
بلقیس ایدھی نے ہنستے ہوئے بتایا کے ایک دفع وہ اور ایدھی صاحب ایک پرائیویٹ کار پر سکھر جا رہے تھے ایک شادی پر. رات کا وقت تھا اندرون سندھ سے گزرتے ہوئے ایک مقام پر کچھ ڈاکو راستے میں آ گئے اور ہماری گاڑی روڈ سے اتار کر کچے میں لے گئے وہاں پہلے سے کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں اور ڈاکو لوٹ مار میں مصروف تھے…
تھوڑی دیر میں ایک ڈاکو ہماری طرف آیا اور ڈرائیور اور ایدھی صاحب کو باہر نکلنے کا کہا ان دونوں کی تلاشی لی اور جیب خالی کرا لی…
اچانک اس ڈاکو کی نظر ایدھی صاحب پر پڑی اور غور سے ان کو دیکھنے کے بعد ایک ڈاکو جلدی سے ایک جانب کھڑی جیپ کی طرف گیا اور ایک شخص کے ساتھ جلدی واپس آ گیا …
اس شخص نے ٹارچ کی روشنی ایدھی صاحب کے چہرے پر ڈالی اور پوچھا آپ عبدالستار ایدھی ہیں جواب ہاں پر ملا تو وہ ڈاکو کا سردار ایک دم پریشان ہو گیا…
فوری حکم ہوا کے تمام گاڑیاں جن سے لوٹ مار کی گئی ہے ان کو مال واپس کیا جاۓ اور باقاعدہ طور پر وہ شخص ایدھی صاحب کے ہاتھ چوم کر معافی مانگنے لگا…
مزید حیرت کی بات یہ ہوئی کے جب وہ ڈاکو ہمیں رخصت کرنے لگا تو 20 لاکھ روپے بطور چندہ ایدھی صاحب کے حوالے کیا. ایدھی صاحب کے انکار پر بولا سر جب میرے جیسے گنہگار پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں تو ہمارا کوئی رشتے دار ہماری لاش تک نہیں وصول کرتا اور ایدھی ہی ہماری لاش کو کفناتا ہے اور دفناتا ہے
…ایک زمانہ تھا ڈاکو بھی آعلیٰ ظرف ہوا کرتے تھے۔۔۔
تاریخ میں ایک شخص ایسا بھی گزرا ہے جس نے بھیک بھی دوسروں کے لیے مانگی ہے ۔