The Unseen Power of a Good Mother: The Inspirational Story of a Quran Teacher
The Desire of a Young Student
A Quran teacher shared a deeply inspiring story. One day, a young boy approached the teacher, eager to enroll in the madrasa (religious school). The teacher asked the boy, “Do you have any part of the Quran memorized?” The boy confidently replied, “Yes.”
The Boy’s Knowledge
The teacher then tested the boy by asking him to recite the 30th chapter of the Quran. The boy recited it from memory. Impressed, the teacher asked if the boy also knew Surah Al-Mulk. To his surprise, the boy recited that as well.
Amazed by the child’s memory at such a young age, the teacher asked him to recite Surah An-Nahl. Once again, the boy recited it flawlessly.
A Surprising Revelation
As the boy continued to answer the teacher’s questions, the teacher’s astonishment grew. Deciding to test the boy further, the teacher asked, “Do you also know Surah Al-Baqarah?” The boy responded with a confident “Yes” and recited the entire surah without making a single mistake.
In utter amazement, the teacher asked, “Have you memorized the entire Quran?” The boy confirmed, “Yes.” Overwhelmed with joy, the teacher spontaneously exclaimed, “SubhanAllah, MashaAllah, TabarakAllah!”
The teacher then invited the boy to visit his office the next day, along with his guardian.
Unexpected Encounter with the Boy’s Father
The teacher spent the rest of the day in a state of wonder, assuming that the boy’s father must be a devout, pious man who deeply loves the Quran. However, the next morning, when the boy arrived with his father, the teacher was taken aback. The father did not appear to be a man who strictly adhered to religious practices.
Sensing the teacher’s surprise, the boy’s father immediately spoke up. “I know you are astonished that I am the father of this child,” he said. “But let me explain. The real reason behind my son’s memorization of the Quran is his mother. She is as capable as a thousand men when it comes to raising our children.”
The Mother’s Role in Raising Huffaz (Quran Memorizers)
The father continued, “You will be even more surprised to learn that I have three sons, and all of them are Huffaz (those who have memorized the Quran). My youngest daughter, who is just four years old, has already memorized the 30th chapter.”
Shocked, the teacher asked, “How is this possible? How did a four-year-old memorize the 30th chapter of the Quran?”
The father explained, “My wife begins teaching our children the Quran as soon as they start speaking. She instills a love for memorizing the Quran in them.”
He went on to describe his wife’s methods. She would organize competitions among the children, saying, “Whoever memorizes this surah first will get their favorite dinner.” Or, “Whoever memorizes this chapter first will get to choose where we go for the weekend.” And, “Whoever finishes memorizing the Quran first will choose our destination for the annual vacation.”
As a result, the children eagerly participated in memorizing the Quran, driven by their enthusiasm.
The Power of Righteous Mothers
The teacher concluded, “Yes, it is such righteous mothers who truly shape households. The efforts of Imam Bukhari’s mother were behind his becoming the ‘Commander of the Faithful in Hadith.’ The great scholar and jurist Imam Shafi’i became who he was due to his mother’s noble endeavors. Imam Malik’s high rank as the ‘Imam of the Abode of Migration’ was due to his mother’s influence. The title of ‘Imam of the People of the Sunnah and the Community’ that Imam Ahmad bin Hanbal earned was also the result of his mother’s hard work.
Remember, a righteous and pious woman is not just half of society; she is the foundation and pillar of society.
To my community’s mothers: To produce individuals who are beneficial to society and adorned with the light of faith, you need to become a true community yourselves. If mothers resolve to take on this mission, nothing can stop our nation from reaching its pinnacle.”
(ایک قابل رشک واقعہ)
مائیں ہی نسل سنوارتی ہیں
ایک معلم قرآن انتہائی نصیحت آموز واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایک بچہ میرے پاس آیا جو مدرسے میں داخلہ لینے کا شدید خواہشمند تھا۔
میں نے اس سے پوچھا: بچے! آپ کو قرآن کا کچھ حصہ زبانی یاد ہے؟ بچے نے کہا: جی۔
میں نے اس کا امتحان لیتے ہوئے کہا: پھر آپ مجھے تیسواں پارہ سنائیں۔
اس نے مجھے تیسواں پارہ زبانی سنا دیا۔
میں نے پوچھا: آپ کو سورۃ الملک بھی یاد ہے؟
اس نے مجھے سورۃ الملک بھی سنادی۔
مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس چھوٹے سے بچے نے کم سنی کے باوجود قرآن کریم کا کچھ حصہ حفظ کیا ہوا ہے۔
میں نے اس سے سورۃ النحل سنانے کو کہا تو اسے وہ بھی یاد تھی۔۔
جوں جوں وہ میرے سوالات کا جواب دے رہا تھا، میری حیرانی بڑھتی جا رہی تھی۔
میں نے سوچا کہ اب اس سے بڑی سورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ میں نے کہا: آپ کو سورۃ البقرہ بھی یاد ہے؟
اس نے ”ہاں“ میں جواب دیا اور ساتھ ہیں کسی غلطی کے بغیر سورۃ البقرہ بھی زبانی سنا ڈالی۔
میں نے متعجب ہو کر پوچھا: بچے! لگتا ہے آپ نے پورا قرآن حفظ کر رکھا ہے؟
اس نے کہا: جی۔ یہ سنتے ہی فرط مسرت سے میری زبان سے بے ساختہ سبحان اللّٰہ ، ماشاءاللہ، تبارک اللہ کے الفاظ ادا ہونا شروع ہوگئے۔
میں نے اس سے کہا: آپ کل میرے دفتر آجائیے گا اور ساتھ اپنے سرپرست کو بھی لیتے آئیے گا۔
میں بچے کے جانے کے بعد حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوبا رہا اور دل ہی دل میں تانے بانے بنتا رہا کہ یقینا اس کے والد صاحب دین کے پابند، نیک سیرت اور قرآن سے شدید محبت رکھنے والے ہوں گے جس کے نتیجے میں اس نے اپنے بچے کو اتنی چھوٹی عمر میں قرآن یاد کرا دیا ہے۔
مجھے اس وقت حیرانی کا شدید جھٹکا لگا جب وہ کل صبح اپنے والد صاحب کو لے کر آیا تو اس کے والد صاحب ظاہری شکل و صورت سے بالکل بھی متبع سنت اور پابند شریعت نہیں لگ رہے تھے۔
اس بچے کے باپ نے میری پریشانی اور استعجاب کو بھانپ لیا اور فورا بولا: میں جانتا ہوں کہ آپ میرے اس بچے کا والد ہونے کی وجہ سے حیران و ششدر ہو رہے ہیں۔۔ میں ابھی آپ کی حیرت ختم کیے دیتا ہوں۔۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بچے کے حفظ قرآن کے پیچھے اس کی والدہ کا ہاتھ ہے جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔۔
آپ یہ بات سن کر مزید حیران ہوں گے کہ میرے تین بیٹے ہیں اور سب قرآن کے حافظ ہیں۔
میری سب سے چھوٹی بیٹی چار سال کی ہے اور وہ بھی تیسواں پارہ حفظ کر چکی ہے۔
میری حیرانی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔۔ میں نے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہے!! چار سال کی بچی نے تیسواں پارہ کیسے یاد کر لیا ہے؟!
اس نے جواب دیا: بچوں کی والدہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بچہ بولنا شروع کرتا ہے تو وہ اسے قرآن یاد کروانا اور حفظ قرآن کا شوق دلانا شروع کردیتی ہے۔۔
وہ بچوں کا مقابلہ کرواتی ہے اور کہتی ہے کہ جو سب سے پہلے یہ سورۃ یاد کرے گا، رات کا کھانا اس کی پسند کا بنے گا۔۔
جو سب سے پہلے پارہ حفظ کرے گا، ہم ویک اینڈ پر اس کی پسند کی جگہ جائیں گے۔۔
جو سب سے پہلے قرآن ختم کرے گا، ہم سالانہ چھٹیاں اس کے منتخب کردہ علاقے میں گزارنے جائیں گے۔۔
یوں بچے اپنے اپنے شوق کی تکمیل کے کیے حفظ قرآن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
جی ہاں، ایسی نیک مائیں ہی گھر سنوارتی ہیں
امام بخاری رحمہ اللّٰہ کے امیر المومنین فی الحدیث بننے کے پیچھے ان کی والدہ ہی کی کاوشیں تھیں
امام شافعی رحمہ اللّٰہ کے عظیم فقیہ و محدث بننے کے پیچھے ان کی والدہ ماجدہ کی جہود مسعودہ تھیں
امام مالک رحمہ اللّٰہ کے امام دار الہجرہ کے منصب عالی پر فائز ہونے کے پیچھے ان کی والدہ محترمہ کا ہاتھ تھا
امام احمد بن حنبل کے امام اہل السنۃ و الجماعۃ کا لقب حاصل کرنے کے پیچھے ان کی والدہ محترمہ کی محنتیں تھیں
یاد رکھیے! نیک اور صالح عورت نصف معاشرہ نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کی بنیاد اور ستون ہوتی ہے۔
میری امت کی ماؤں کو معاشرے کو کار آمد اور دین کے نور سے آراستہ افراد فراہم کرنے کے لیے امت بننے کی ضرورت ہے۔۔ اگر مائیں امت بننے کا تہیہ کر لیں تو قوم کو بام عروج پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔