Thursday , January 16 2025

The Bridge of Reconciliation: A Tale of Two Brothers

The Bridge of Reconciliation: A Tale of Two Brothers

The Tale of Two Brothers

Introduction

Two brothers owned large farms situated right next to each other. For forty years, they lived in perfect harmony. Whenever one of them needed additional machinery or extra farmhands due to a heavy workload, he would freely use the resources of the other without hesitation or asking.

The Rift

However, one day, fate had something else in store. A minor disagreement escalated into a major conflict. The once peaceful relationship deteriorated to the point where they stopped speaking to each other. Weeks passed, and one morning, the brothers, now deeply angered, resorted to hurling insults at each other. In a fit of rage, the younger brother took out his bulldozer and by evening, had dug a deep and long trench between their houses, filling it with water from the nearby river.

The Carpenter’s Visit

The very next day, a carpenter happened to pass by. The elder brother called him over and invited him to his house. He explained, “The farm across the trench belongs to my brother. We’ve had a falling out, and yesterday, he used a bulldozer to create this deep trench and filled it with water, cutting off our connection.”

He continued, “I want you to build an eight-foot-high fence between our farms because I don’t even want to see his face anymore. And make sure this work is done as quickly as possible; I’ll pay you whatever you ask.”

Nodding, the carpenter replied, “First, show me the exact spot where you want the fence, so I can measure the area and get the necessary materials from the nearby town.”

Building the Bridge

After inspecting the site, the carpenter and the elder brother went to a nearby town, bringing back the required materials on a large pickup truck, along with three or four laborers. The carpenter assured the elder brother, “Now, you can rest while we handle the work.”

The carpenter and his team worked tirelessly throughout the day and night.

The Surprise

The next morning, when the elder brother woke up, he was shocked to see that there was no eight-foot-high fence or even a single inch of it. Instead, where the trench once was, there stood a beautiful bridge.

As he approached the bridge, his eyes widened in disbelief. On the other side of the bridge stood his younger brother, looking back at him. For a few moments, the elder brother stood there, silently staring at the trench and then at the bridge. Slowly, a faint smile appeared on his face. Seconds later, the two brothers, with tears in their eyes, walked toward each other, meeting in the middle of the bridge, and embraced each other tightly.

Conclusion

Soon, their families, hearing the commotion, ran out of their homes, joining them on the bridge, laughing and celebrating the reunion. The carpenter, standing at a distance, smiled at the scene.

As the elder brother’s eyes caught sight of the carpenter, who was preparing to leave, he ran over to him and asked him to stay with them for a few more days. But the carpenter simply smiled and said, “I have many more bridges to build,” and with that, he departed.

Moral: Always strive to build bridges between people, not walls. Try to build at least one bridge every month.

ابھی اور بہت سے”پُل “ بنانے ہیں

دو سگے بھائیوں کے بڑے بڑے زرعی فارم ساتھ ساتھ واقع تھے دونوں چالیس سال سے ایک دوسرے سے اتفاق سے رہ رہے تھے اگر کسی کو اپنے کھیتوں کیلئے کسی مشینری یا کام کی زیادتی کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی ضرورت پڑتی تو وہ بغیر پوچھے بلا ججھک ایک دوسرے کے وسائل استعمال کرتے تھے 
لیکن ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور کسی معمولی سی بات سے پیدا ہونے والا یہ اختلاف ایسا بڑھا کہ ان میں بول چال تک بند ہو گئی اور چند ہفتوں بعد ایک صبح ایسی بھی آ گئی کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے گالی گلوچ پر اتر آ ئے اور پھر چھوٹے بھائی نے غصے میں اپنا بلڈوزر نکالا اور شام تک اس نے دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھاڑی کھود کر اس میں دریا کا پانی چھوڑ دیا
․․․․اگلے ہی دن ایک ترکھان کا وہاں سے گزر ہوا تو بڑے بھائی نے اسے آواز دے کر اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے اس نے کل بلڈو زر سے میر ے اور اپنے گھروں درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھاڑی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے
میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑھ لگا دو کیونکہ میں اس کا گھر تو دور کی بات ہے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا اور دیکھو مجھے یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔
ترکھان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سے ضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں 
موقع دیکھنے کے بعد ترکھان اور بڑا بھائی ساتھ واقع ایک بڑے قصبہ میں گئے اور تین چار متعلقہ مزدوروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گئے ترکھان نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور اپنا کام ہم پر چھوڑ دیں․․․ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔
صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ،وہ قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں ایک بہترین پل بنا ہوا تھا جہاں اسکے چھوٹے بھائی نے گہری کھاڑی کھود دی تھی
جونہی وہ اس پل پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑا کبھی کھاڑی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری چند سیکنڈ بعد دونوں بھائی نپے تلے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے پل کے درمیان آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر دونوں بھائیوں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو پوری شدت سے بھینچتے ہوئے گلے لگا لیا۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے اور دور کھڑا ہوا ترکھان یہ منظر دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا 
بڑے بھائی کی نظر جونہی ترکھان کی طرف اٹھی جو اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا اورکہا کہ وہ کچھ دن ہمارے پاس ٹھہر جائے لیکن ترکھان یہ کہہ کر چل دیا کہ اسے ابھی اور بہت سے”پُل “ بنانے ہیں۔
برائے مہربانی کوشش کریں کہ لوگوں کے درمیان پل بنائیں دیواریں نہ بنائیں۔ کوشش کریں کہ ھرمہینہ کم ازکم ایک پل ضرور بنا سکیں

Check Also

The Spirit of Fatima Jinnah: A Dream That Changed Everything

Introduction “Mom! Our Urdu teacher has given us an assignment to write an essay on …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *