دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال
سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی
کبھی درد ہے تو دوا نہیں ،جو دوا ملی تو شفا نہیں
وہ ظلم کرتے ہیں اس طرح ،جیسے میرا کوئی خدا نہیں
نہ جواب دے نہ سوال کر چھوڑ دے میرے حال پر
تجھے کیا ملے گا تو ہی بتا مجھے یوں الجھنوں میں ڈال کر
محفل میں چل رہی تھی میرے قتل کی تیاری
ہمیں دیکھا تو سب بولے کے بڑی لمبی عمر ہے تمہاری
نہیں ہے اب کوئی شکایت تم سے
تو رکھ دوسروں کو خوش ہم تنہا ہی اچھے ہیں
نہ جانے کونسی شہرت پے انسان کو ناز ہے اقبال
انسان تو اپنے آخری غسل کا بھی محتاج ہے
نیند آئے گی تو اس قدر سوئیں گے
ہمیں جگانے کے لیے لوگ روئیں گے
الله کو بھول گئے لوگ فکرروزی میں
تلاش رزق کی ہے رازق کا خیال ہی نہیں
دل نہ امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
جانے کس کس سے ملا وہ کتنا مصروف رہا
اس عید پر اس نے مجھے عید مبارک بھی نہیں کہا