Thursday , January 16 2025

A Lesson in Divine Justice: The Tale of the Distributing Dirhams

A Lesson in Divine Justice: The Tale of the Distributing Dirhams

A Lesson in Accountability

The Question

A student asked his teacher, “Teacher, how will the reckoning be in the Hereafter?”

The Teacher’s Response

The teacher paused for a moment, then stood up and distributed some money among all the students. He gave:

  • 100 dirhams to the first boy,
  • 75 dirhams to the second,
  • 60 dirhams to the third,
  • 50 dirhams to the fourth,
  • 25 dirhams to the fifth,
  • 10 dirhams to the sixth,
  • 5 dirhams to the seventh,
  • And only 1 dirham to the boy who had asked the question.

The boy felt deeply hurt and insulted, thinking that the teacher considered him the least deserving and the most insignificant.

The Meeting at the Bakery

The teacher smiled and told everyone, “You all have a holiday now. Go and spend the money completely. We will meet next Saturday at the village baker’s oven.”

When Saturday arrived, all the students gathered at the baker’s oven, where the teacher was waiting for them. After everyone had arrived, the teacher said, “Each of you will climb the oven and report how you spent your money.”

The First Student’s Report

The first student, who had received 100 dirhams, climbed onto the hot edge of the oven. The teacher asked, “Tell me, how did you spend the 100 dirhams?”

The boy, suffering from the heat of the oven and the blazing flames, could barely keep his balance. He recounted his expenditures: “I bought some sweets for 5 dirhams, tea for 10 dirhams, grapes for 20 dirhams, bread for 5 dirhams,” and so on. His feet were burning, and his body was scorched by the flames. He was parched and struggling to speak, and finally, he descended.

The Other Students

Then the second boy climbed up, followed by the third and so on, each one recounting their expenditures with varying degrees of discomfort and pain until it was the turn of the boy who had received only 1 dirham.

The Last Student’s Report

The teacher instructed him to climb the oven as well. The boy quickly climbed up and said without hesitation, “I bought a bunch of coriander for my home with the 1 dirham,” and then he smiled and descended, standing comfortably in front of the teacher, while the other boys were still struggling to cool their burning feet with water.

The Teacher’s Lesson

The teacher gathered all the students and said, addressing the boy with 1 dirham, “Children, this was a small representation of the reckoning on the Day of Judgment. Each person will be held accountable according to what they were given.”

The boy looked at the teacher with affection and said, “I am envious and fond of your generosity, even though you gave me the least. However, the example of Allah, the Almighty, is much higher and more exalted.”

The Prayer

“May Allah protect us from the severity of reckoning and deal with us with forgiveness and leniency. Ameen.”

استاذ بھی کیا بے مثال ہے کیسے اپنے طالب علموں کو سمجھایا

ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا: استاد جی!
یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟

استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے
اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے
انہوں نے
پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے سوال پوچھا تھا اسے فقط ایک درہم دیا۔

لڑکے بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا، اسے اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے سب سے کمتر اور کم مستحق کیونکر جانا؟

استاد نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھتے ہوئے کہا : سب لڑکوں کو چھٹی، تم سب لوگ جا کر ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو، اب ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے نانبائی کے تنور پر ہوگی۔

ہفتے والے دن سارے طالبعلم نانبائی کے تنور پر پہنچ گئے، جہاں استاد پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہا تھا۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استاد نے انہیں بتایا کہ تم میں ہر ایک اس تنور پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے پیسوں کو کہاں خرچ کیا ہے کا حساب دے گا۔

پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تنور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد نے پوچھا؛ بتاؤ، میرے دیئے ہوئے سو درہم کیسے خرچ کیئے تھے۔

جلتے تنور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی حدت سے پریشان لڑکا ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا، خرچ کیئے ہوئے پیسوں کو یاد کرتا اور بتاتا کہ : پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پاچ درہم کی روٹیاں۔۔۔۔ اور اسی طرح باقی کے خرچے۔ لڑکے کے پاؤں حدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تنور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دیکر نیچے اترا۔

اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا اور پھر اسی طرح باقی لڑکے،
حتی کہ اس لڑکے کی باری آن پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔

استاد نے اسے بھی کہا کہ تم بھی تنور پر چھڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔ لڑکا جلدی سے تنور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا کہ میں نے ایک درہم کی گھر کیلئے دھنیا کی گڈی خریدی تھی، اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔

استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا : بچو : یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اس کو جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔

لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ : آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلٰی و ارفع ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے حساب کی شدت سے بچائے اور ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ آمین

Check Also

The Spirit of Fatima Jinnah: A Dream That Changed Everything

Introduction “Mom! Our Urdu teacher has given us an assignment to write an essay on …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *