Thursday , January 16 2025

The Spirit of Fatima Jinnah: A Dream That Changed Everything

Introduction

“Mom! Our Urdu teacher has given us an assignment to write an essay on ‘Fatima Jinnah.’ Can you please help me?” asked Mahpara, as she came home from school.
“My dear, it’s better if you go to the library with your father. You’ll find many books there with all the information you need,” her mother suggested.

The Library Visit

That very evening, Mahpara went to the nearby library with her father. After dropping her off, her father left for some work. Mahpara started searching for books, and after a while, she found two relevant ones. She sat in a quiet corner, gathering information for her essay. Time flew by as she wrote, and soon, something extraordinary happened.

The Mysterious Woman

Suddenly, she noticed a graceful and elegant woman standing in front of her. The woman was wearing a traditional gharara and had a scarf elegantly draped over her head. There was an almost divine glow on her face, and a soft white light seemed to surround her. Mahpara stared in awe at the dignified figure. The library was empty except for the two of them. The mysterious woman walked gracefully and sat on the chair opposite Mahpara.

The Revelation

“You look a lot like Fatima Jinnah,” Mahpara blurted out in surprise.
“I am Fatima Jinnah, the beloved sister of Muhammad Ali Jinnah,” the woman replied, her voice filled with warmth and magic.
“What? Are you really… Fatima Jinnah?” Mahpara stammered, unable to believe what she was hearing. The woman nodded with a gentle smile.

The Story of Fatima Jinnah’s Life

“I was born on July 31, 1893, in Karachi. We were seven siblings, but one of my brothers passed away during childhood. I was the closest to my elder brother, Muhammad Ali. When I was just two years old, my mother passed away, and by the time I was eight, my father had also left us,” she began telling her story.

“Who took care of you after that?” Mahpara asked curiously.
“My brother Muhammad Ali brought me to Bombay and enrolled me in a convent school in Bandra. I lived in the boarding house there. In 1913, I passed my senior Cambridge exams and later, in 1919, I graduated as a dentist from Dr. Ahmad Dental College in Calcutta. I returned to Bombay as a qualified dentist.”

Career and Sacrifices

“Wow, you were a dentist?” Mahpara asked in amazement.
“Yes, I opened my own dental clinic in Bombay in 1923, which I ran for about 6-7 years. However, after the death of my sister-in-law Rattan Bai, I closed my clinic and moved in with my brother permanently to take care of him. I devoted my entire life to serving my brother, which is why I never married.”

“You truly loved your brother, didn’t you?” Mahpara asked innocently.
“Yes, and my brother loved me deeply too. He used to say, ‘Whenever I returned home, my sister was like a ray of hope and light for me. Her care and presence kept me going through my toughest times.'”

Support in the Freedom Struggle

“My brother had a great dream, alongside leaders like Allama Iqbal, to create a separate country for Muslims. I stood by him in this struggle. I especially mobilized Muslim women, organizing them to contribute to the freedom movement. I established the ‘Women’s Relief Committee,’ which later became the foundation of APWA (All Pakistan Women’s Association). When the partition happened in 1947, I took charge of helping Muslim women who migrated to Pakistan.”

The Legacy of Fatima Jinnah

“Is that why your brother succeeded, because of your unwavering support?” Mahpara added thoughtfully.
“Indeed, I was with my brother every step of the way. He once said about me, ‘Miss Fatima Jinnah has been a constant source of encouragement and support for me. During every difficult moment, she lifted my spirits and took care of my health.’ After the creation of Pakistan, I continued to work for the nation, and the people honored me with the title ‘Madar-e-Millat’ (Mother of the Nation).”

Lessons for Mahpara

“What does ‘Madar-e-Millat’ mean?” Mahpara inquired.
“It means the ‘Mother of the Nation.’ Just as a mother makes sacrifices for her children, I made sacrifices for the nation. Even in my old age, I continued supporting social and educational institutions, carrying on my brother’s mission after his passing.”

“I want to be like you! What should I do?” Mahpara asked with determination.
“Always fulfill your duties with sincerity. A nation cannot progress unless every individual commits to their responsibilities. Think a hundred times before making a decision, but once you’ve made it, stand firm,” Fatima Jinnah advised, sharing one of her famous quotes with Mahpara.

The Awakening

Suddenly, someone shook Mahpara awake. “Wake up… wake up… What’s your name?”
Mahpara stood up in a daze. It was the librarian who had come to wake her. “Was I dreaming?” she wondered aloud, looking around for the magical woman, but she was nowhere to be seen.

Conclusion

Mahpara returned home and wrote her essay, then showed it to her father. After reading it, her father smiled proudly.
“You’ve written a wonderful essay. Just add one more thing—Fatima Jinnah passed away on July 9, 1967, at the age of 72 and was laid to rest with great honor at the Quaid’s Mausoleum.”

قوم کی ماں

”امی!اردو کی ٹیچر نے”فاطمہ جناح“ پر مضمون لکھنے کے لئے دیا ہے۔آپ میری مدد کریں پلیز۔“ماہ پارہ نے اسکول سے گھر پہنچتے ہی امی سے کہا۔”بیٹی!بہتر ہے کہ تم اپنے ابو کے ساتھ لائبریری چلی جاؤ،وہاں بہت سی کتابیں ہوں گی جن سے معلومات مل جائیں گی۔“امی نے مشورہ دیا۔
ماہ پارہ اسی دن اپنے ابو کے ساتھ گھر کے قریب ایک لائبریری چلی گئی۔
ابو اسے چھوڑ کر کسی کام سے چلے گئے۔تھوڑی دیر ڈھونڈنے کے بعد اسے دو کتابیں مل گئیں ۔وہ ایک کونے میں بیٹھ کر معلومات جمع کرنے لگی۔اسے لکھتے لکھتے کافی دیر ہو گئی تھی۔اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک باوقار،خوب صورت اور دبلی پتلی سی خاتون کھڑی تھیں۔انھوں نے غرارہ پہنا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔
ان کے چہرے پر نور ہی نور تھا اور ان کے آس پاس سفید سی روشنی محسوس ہو رہی تھی۔
ماہ پارہ سکتے کے عالم میں سحر زدہ کر دینے والی خاتون کو دیکھتی رہی۔ لائبریری میں کوئی نہیں تھا۔وہ خاتون شاہانہ انداز میں چلتی ہوئی آگے بڑھیں اور ماہ پارہ کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
”آپ کی صورت محترمہ فاطمہ جناح سے بہت ملتی ہے۔“ماہ پارہ نے کہا۔
”میں فاطمہ جناح ہی ہوں!محمد علی جناح کی لاڈلی بہن․․․“ان کی دل کش آواز میں کوئی جادو تھا جس نے ماہ پارہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
”آ․․․․آپ․․․․مم․․․․محترمہ فاطمہ جناح ہیں․․․․․؟“ماہ پارہ نے بے یقینی سے کہا تو انھوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
ماہ پارہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جا رہے تھی۔
”آج میں تمہیں اپنی کہانی سناتی ہوں۔میں 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئی۔ہم سات بہن بھائی تھے۔ایک بھائی کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا،ورنہ آٹھ ہوتے۔
میں اپنے بڑے بھائی محمد علی کے سب سے زیادہ قریب تھی۔جب میں صرف دو سال کی تھی تو میری امی کا انتقال ہو گیا اور جب آٹھ سال کی ہوئی تو میرے ابو بھی وفات پا گئے۔“انھوں نے بولنا شروع کیا۔
”اوہ!پھر آپ کس کے پاس رہیں؟“ماہ پارہ نے سوال کیا۔
”پھر مجھے بھائی محمد علی نے اپنے پاس بمبئی بلوا لیا اور باندرہ کے کانونٹ اسکول (Convent school) میں داخل کروا دیا۔
میں اسی اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں رہنے لگی۔1913ء میں،میں نے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا اور پھر 1919ء میں”ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج“ کلکتہ سے دانتوں کی ڈاکٹر بن کر بمبئی واپس آگئی۔“محترمہ نے جواب دیا۔
”واہ!آپ ڈینٹسٹ تھیں؟“ماہ پارہ نے متاثر ہوتے ہوئے سوال کیا۔
”جی ہاں!1923ء میں ،میں نے بمبئی میں اپنا ڈینٹل کلینک کھولا جو 7,6 سال تک چلتا رہا،پھر جب میری بھابی‘رتن بائی‘کا انتقال ہوا تو میں نے اپنا کلینک بند کر دیا اور ہمیشہ کے لئے اپنے بھائی کے گھر میں رہنے لگی،تاکہ ان کا خیال رکھ سکوں،اس لئے میں نے شادی تک نہیں کی۔
اپنی پوری زندگی میں نے اپنے بھائی کی مدد اور خدمت میں گزار دی۔“محترمہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”واقعی؟آپ اتنی محبت کرتی تھیں اپنے بھائی سے؟”ماہ پارہ نے معصومیت سے پوچھا۔
”بالکل !اور صرف میں ہی نہیں میرے بھائی بھی مجھ سے شدید محبت کرتے تھے۔وہ میرے بارے میں کہتے تھے:”میں جب بھی گھر واپس جاتا تھا میری بہن مجھے اُمید اور روشنی کی ایک کرن کی طرح لگتی تھیں۔
میری پریشانیاں بڑھ جاتیں اور میری صحت خراب ہو جاتی اگر وہ میرا خیال نہ رکھتیں۔“ان کی آواز میں محبت تھی۔
”میرے بھائی نے تو کبھی میری تعریف نہیں کی۔“ماہ پارہ کے منہ سے بے دھیانی میں نکل گیا اور مس جناح پھر مسکرانے لگیں۔
”میرے بھائی نے علامہ اقبال سمیت بہت سے رہنماؤں کے دیکھے خواب کو سچ کرنے کی ٹھانی اور الگ ملک حاصل کرنے کے لئے آزادی کی تحریک چلائی جس میں، میں نے اپنے بھائی کا بھرپور ساتھ دیا۔
خاص طور پر مسلم خواتین کو جمع کیا اور انھیں بھی اپنے ساتھ اس کام میں شامل کیا۔“انھوں نے بولنا جاری رکھا:”میں نے عورتوں کے لئے’ویمنز ریلیف کمیٹی‘بنائی جو بعد میں اپوا(آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن) کی بنیاد بنی۔1947ء میں جب لوگ ہندوستان سے پاکستان آئے تو میں نے مسلمان خواتین کی بہترین طریقے سے سربراہی کی۔ “فاطمہ جناح کہانی سناتی رہیں۔
”آپ قائداعظم کی اتنی مدد کرتی تھیں اسی لئے وہ کامیاب ہو گئے۔“ماہ پارہ نے اپنی طرف سے عقل کی بات کی۔
”بے شک!میں ہر موقع پر اپنے بھائی کے ساتھ رہی،میرے بھائی خود عظیم انسان تھے،میں ان کے شانہ بشانہ پاکستان حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ایک موقع پر بھائی نے میرے بارے میں کہا تھا:”مس فاطمہ جناح میرے لئے مدد اور حوصلہ افزائی کا ایک مستقل ذریعہ ہیں۔
ہر مشکل گھڑی میں انھوں نے مجھے ہمت اور اُمید دلائی اور ہمیشہ میری صحت کی فکر کرتے ہوئے میری خدمت کی۔“
محترمہ نے مزید بتایا:”میں نے ملک و قوم کے لئے قربانیاں دیں اور پاکستان بننے کے بعد بھی ملک اور ملت کی بہتری کے لئے کام کرتی رہی اس لئے قوم نے مجھے ’مادر ملت‘ کا لقب دیا۔“مس جناح نے فخر سے کہا۔
”مادر ملت کا مطلب کیا ہے؟“ماہ پارہ نے سوال کیا۔
”اس کا مطلب ہے قوم کی ماں۔ایک ماں ہی بڑی بڑی قربانیاں دے سکتی ہے اور اپنی زندگی کے بجائے اپنے بچوں کی زندگی کے بارے میں سوچتی ہے۔ضعیف ہو کر بھی میں نے سماجی اور تعلیمی اداروں کی مدد کرنا جاری رکھا اور اپنے بھائی کی وفات کے بعد ان کے مقصد کو لے کر چلتی رہی۔“مس جناح دھیمے لہجے میں بولتی رہیں۔
”میں بھی آپ کی طرح بننا چاہتی ہوں۔
مجھے کیا کرنا چاہیے؟“ماہ پارہ نے پر عزم ہو کر پوچھا۔
”اپنے فرائض خلوص سے ادا کریں،جب تک ہر شخص اپنا فرض ادا کرنے کا عزم نہ کر لے قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں،مگر جب کوئی فیصلہ کر لیں تو اس پرمضبوطی سے ڈٹے رہیں۔“محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے اقوال میں سے ایک سنا کر ماہ پارہ کو نصیحت کی۔
”اُٹھیں․․․اُٹھ جائیں․․․․کیا نام ہے آپ کا؟“اچانک کسی نے اسے جھنجھوڑا۔ماہ پارہ ایک دم اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اٹھانے والے کو دیکھنے لگی۔وہ لائبریری کی انچارج تھیں، جو اسے جگانے آئیں تھیں۔
”کیا میں سو گئی تھی؟“اس نے اپنے آپ سے کہا پھر چاروں طرف نظر دوڑائی،مگر وہ جادوئی اثر رکھنے والی خاتون کہیں نظر نہیں آئیں۔اس کا مطلب ہے،اس نے خواب میں انھیں دیکھا تھا۔ماہ پارہ نے گھر آکر مضمون لکھا اور اپنے ابو کو دکھایا۔ابو نے مضمون پڑھا تو بہت خوش ہوئے۔
”تم نے تو بہت اچھا مضمون لکھا ہے،تھوڑا سا اضافہ کر لو۔محترمہ فاطمہ جناح نے 9 جولائی 1967ء کو 72 سال کی عمر میں وفات پائی۔مزار قائد میں بہت اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین کی گئی۔

Check Also

Chasing the Illusion: The Story of the Enigmatic Girl

Introduction This is the story of a girl who was loved by everyone, but the …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *