کبھی راستے بدل گئے کبھی ارادے بدل گئے
ہم نہ بدلے مگر تیرے وعدے بدل گئے
محبت کے اندھیرے میں پتھر پگھل گئے
غیروں سے کیا گلا جب اپنے ہی بدل گئے
لکھنا تو تھا کے خوش ہوں تیرے بغیر بھی
آنسوں مگر قلم سے پہلے ہی گر گئے
زندگی میں راستے کیسے بھی گزر جائیں گے
ایک دن ہم بھی چپکے سے مر جائیں گے
آج رہتے ہیں دوستوں کے دلوں میں یاد بن کر
کل انکھوں سے آنسوں بن کے نکل جائیں گے
یہ لوگ وفا کی قیمت کیا جانیں
بے وفا ہیں یہ غم محبت کیا جانیں
ملتے ہوں جنہیں ہر موڑ پر نئے ہمسفر
وہ ہم جیسے چاہنیں والوں کی قدر کیا جانیں
آنسو اٹھا لیتے ہیں میرے غموں کا بوجھ
یہ وہ دوست ہیں جو احسان جتایا نہیں کرتے
کیوں دل میں بس کر دل کو دکھا تے ہو تم
کس قدر قدم قدم پے آزماتے ہو تم
ہر پل رہتے ہو آنکھوں میں ایک سپنے کی طرح
پھر کیوں انہی آنکھوں کو رلاتے ہو تم
کہاں وفا کا صلہ دیتے ہیں لوگ
اب تو محبت کی سزا دیتے ہیں لوگ
پہلے سجاتے ہیں دلوں میں چاہتوں کے خواب
پھر اعتبار کو اگ لگا تے ہیں لوگ
یاد کرنے سے زندگی ختم تو نہیں ہو جاتی
بس دل دکھتا ہے اپنوں کی بے رخی دیکھ کر
ٹپک پڑتے ہیں آنسو جب تمہاری یاد آتی ہے
یہ برسات ہے کہ جس کا کوئی موسم نہیں ہوتا
اے دل تنہائی میں رہنے کا عادی ہو جا
بدل گئے وہ سب جو صبح و شام یاد آتے تھے